تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
میں کوئی غم تو نہیں تھا جسے کھا بیٹھا ہے
بات کچھ خاک نہیں تھی جو اڑائی تو نے
تیر کچھ عیب نہیں تھا جو لگا بیٹھا ہے
میل کچھ کھیل نہیں تھا جو بگاڑا تو نے
ربط کچھ رسم نہیں تھا جو گھٹا بیٹھا ہے
آنکھ کچھ بات نہیں تھی جو جھکائی تو نے
رخ کوئی راز نہیں تھا جو چھپا بیٹھا ہے
نام ارمان نہیں تھا جو نکالا تو نے
عشق افواہ نہیں تھا جو اڑا بیٹھا ہے
لاگ کچھ آگ نہیں تھی جو لگا دی تو نے
دل کوئی گھر تو نہیں تھا جو جلا بیٹھا ہے
رسم کاوش تو نہیں تھی جو مٹا دی تو نے
ہاتھ پردہ تو نہیں تھا جو اٹھا بیٹھا ہے
غزل
تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
مضطر خیرآبادی