تو مجھ کو چاہتا ہے اس مغالطے میں رہوں
کبھی کرم بھی کیا کر کہ آسرے میں رہوں
جو میری سوچ کو گہرائیوں کی شدت دے
میں زخم زخم کسی ایسے سانحے میں رہوں
جو میری روح کی برفاب رت کو حدت دے
تمام عمر ترے قرب دائرے میں رہوں
جو تیرے قرب کے لمحوں سے ملتا جلتا ہو
میں وقت توڑ کے ایک ایسے سلسلے میں رہوں
وہ جو مقام ہے تیرا مری کہانی میں
اسی مقام پہ میں تیرے تذکرے میں رہوں
اب اس قدر تو نہ ہو انتظار دید ترا
کہ منتظر ترے خوابوں کا رت جگے میں رہوں
شریک کوئی نہ ہو جس میں تیرا میرے سوا
میں تجھ سے منسلک اک ایسے واقعے میں رہوں
غزل
تو مجھ کو چاہتا ہے اس مغالطے میں رہوں
سید کاشف رضا