تو جب میرے گھر آیا تھا
میں اک سپنا دیکھ رہا تھا
تیرے بالوں کی خوشبو سے
سارا آنگن مہک رہا تھا
چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں
سانولا مکھڑا لو دیتا تھا
تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا
میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا
دو روحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا
دو یادوں کا چڑھتا دریا
ایک ہی ساگر میں گرتا تھا
دل کی کہانی کہتے کہتے
رات کا آنچل بھیگ چلا تھا
رات گئے سویا تھا لیکن
تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا
غزل
تو جب میرے گھر آیا تھا
ناصر کاظمی