EN हिंदी
تو جا رہی ہے چھوڑ کے جا پھر کبھی سہی | شیح شیری
tu ja rahi hai chhoD ke ja phir kabhi sahi

غزل

تو جا رہی ہے چھوڑ کے جا پھر کبھی سہی

مراتب اختر

;

تو جا رہی ہے چھوڑ کے جا پھر کبھی سہی
اے بستیوں کی تیز ہوا پھر کبھی سہی

اب آدمی کی جس پہ مسلط مشین ہے
اب زر کی جستجو ہے خدا پھر کبھی سہی

تجھ کو ڈبو گیا تجھے برباد کر گیا
یہ تکیۂ کلام ترا پھر کبھی سہی

اس وقت ایک ربط مسلسل ہے ناگزیر
پابندیٔ قیود انا پھر کبھی سہی

میں اپنے اضطرار سے مجبور ہو گیا
اس نے بگڑ کے مجھ سے کہا پھر کبھی سہی