تو جا رہی ہے چھوڑ کے جا پھر کبھی سہی
اے بستیوں کی تیز ہوا پھر کبھی سہی
اب آدمی کی جس پہ مسلط مشین ہے
اب زر کی جستجو ہے خدا پھر کبھی سہی
تجھ کو ڈبو گیا تجھے برباد کر گیا
یہ تکیۂ کلام ترا پھر کبھی سہی
اس وقت ایک ربط مسلسل ہے ناگزیر
پابندیٔ قیود انا پھر کبھی سہی
میں اپنے اضطرار سے مجبور ہو گیا
اس نے بگڑ کے مجھ سے کہا پھر کبھی سہی

غزل
تو جا رہی ہے چھوڑ کے جا پھر کبھی سہی
مراتب اختر