EN हिंदी
تو ہے یا تیرا سایا ہے | شیح شیری
tu hai ya tera saya hai

غزل

تو ہے یا تیرا سایا ہے

ناصر کاظمی

;

تو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس جدائی نے بدلا ہے

دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے

چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے

دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے

تنہائی کو کیسے چھوڑوں
برسوں میں اک یار ملا ہے

رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی
رستے میں دریا پڑتا ہے

ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصرؔ
آج کسی نے یاد کیا ہے