تو چاہئے نہ تیری وفا چاہئے مجھے
کچھ بھی نہ تیرے غم کے سوا چاہئے مجھے
مرنے سے پہلے شکل ہی اک بار دیکھ لوں
اے موت زندگی کا پتا چاہئے مجھے
یا رب معاف کر کے نہ دے کرب انفعال
میں نے خطائیں کی ہیں سزا چاہئے مجھے
خاموشئ حیات سے اکتا گیا ہوں میں
اب چاہے دل ہی ٹوٹے صدا چاہئے مجھے
ان مست مست آنکھوں میں آنسو ارے غضب
یہ عشق ہے تو قہر خدا چاہئے مجھے
ناصح نصیحتوں کا زمانہ گزر گیا
اب پیارے صرف تیری دعا چاہئے مجھے
ہر درد کو دوا کی ضرورت ہے اے خمارؔ
جو درد خود ہو اپنی دوا چاہئے مجھے
غزل
تو چاہئے نہ تیری وفا چاہئے مجھے
خمارؔ بارہ بنکوی