تو بے وفا ہی سہی تجھ سے پیار آج بھی ہے
ترے لیے یہ دل و جاں نثار آج بھی ہے
میں جانتا ہوں نہ آئے گا تو پلٹ کے کبھی
مگر مجھے تو ترا انتظار آج بھی ہے
تو لاکھ غیر سہی آج کل تو تھا میرا
دل و جگر پہ ترا اختیار آج بھی ہے
ترے بغیر بھی دنیا بہت حسیں ہے مگر
ترے فراق میں دل بے قرار آج بھی ہے
خوشی ہے مجھ کو تجھے مل گئی تری منزل
خوشی سے آنکھ مری اشک بار آج بھی ہے
نہ بھر سکے گا کبھی اس کو وقت کا مرہم
ترے کرم سے مرا دل فگار آج بھی ہے
میں تیرے باغ کا برگ خزاں رسیدہ ہوں
تو وہ کلی ہے کہ جس پر بہار آج بھی ہے
بچھڑ کے تجھ سے جیے جا رہا ہے کیوں عارفؔ
جگر میں یہ خلش نوک خار آج بھی ہے
غزل
تو بے وفا ہی سہی تجھ سے پیار آج بھی ہے
عارف حسن خان