تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے روح مہک اٹھے جسے پی کے درد چہک اٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں
کہاں اب وہ موسم رنگ و بو کہ رگوں میں بول اٹھے لہو
یوں ہی ناگوار چبھن سی ہے کہ جو شامل رگ و پے نہیں
ترا دل ہو درد سے آشنا تو یہ نالہ غور سے سن ذرا
بڑا جاں گسل ہے یہ واقعہ یہ فسانہ جم و کے نہیں
میں ہوں ایک شاعر بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیر شام و عجم نہیں میں کبیر کوفہ و رے نہیں
یہی شعر ہیں مری سلطنت اسی فن میں ہے مجھے عافیت
مرے کاسۂ شب و روز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں
غزل
تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں
ناصر کاظمی