EN हिंदी
تمہیں اک نہیں جانستاں اور بھی ہیں | شیح شیری
tumhin ek nahin jaan-setan aur bhi hain

غزل

تمہیں اک نہیں جانستاں اور بھی ہیں

فضل احمد کریم فضلی

;

تمہیں اک نہیں جانستاں اور بھی ہیں
بہت حادثات جہاں اور بھی ہیں

حسیں اور بھی ہیں جواں اور بھی ہیں
غزالان ابرو کماں اور بھی ہیں

سبھی کو محبت میں ہوتے ہیں صدمے
ابھی کیا ابھی امتحاں اور بھی ہیں

چلو دھوم سے جشن ماتم منائیں
ہمیں اک نہیں نوحہ خواں اور بھی ہیں

نہیں ختم کچھ آسماں پر خدائی
مرے حال پر مہرباں اور بھی ہیں

نقاب اس نے رخ سے اٹھائی تو لیکن
حجابات کچھ درمیاں اور بھی ہیں

فریب کرم اک تو ان کا ہے اس پر
ستم میری خوش فہمیاں اور بھی ہیں

وفا ان سے اپنی جتانے گئے تھے
مگر اب تو وہ بد گماں اور بھی ہیں

نہیں صبر ہی کی کمی تجھ میں فضلیؔ
مری جان کچھ خامیاں اور بھی ہیں