EN हिंदी
تمہیں بتاؤ پکارا ہے بار بار کسے | شیح شیری
tumhin batao pukara hai bar bar kise

غزل

تمہیں بتاؤ پکارا ہے بار بار کسے

غلام ربانی تاباںؔ

;

تمہیں بتاؤ پکارا ہے بار بار کسے
عزیز کہتے ہیں غم ہائے روزگار کسے

سکوت راز کہو یا سکوت مجبوری
مگر لبوں کی جسارت تھی ناگوار کسے

خزاں میں کس نے بہاروں کی دل کشی بھر دی
دعائیں دیتا ہے دامن کا تار تار کسے

کہاں وہ داغ کہ دل کا گماں کرے کوئی
سمجھئے عہد تمنا کی یادگار کسے

نسیم صبح کا غنچوں کو انتظار سہی
ہوائے دشت ہوں میں میرا انتظار کسے

شگفتگی کا اشارہ ہے پھول برسیں گے
نہ جانے آج نوازے‌ گی شاخ دار کسے

جراحتوں کے خزانے لٹا دیے تاباںؔ
کیا ہے راہ کے کانٹوں نے اتنا پیار کسے