تمہیں اس سے محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے
کسی دن اس کے در پہ رقص وحشت کیوں نہیں کرتے
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے
تمہارے دل پہ اپنا نام لکھا ہم نے دیکھا ہے
ہماری چیز پھر ہم کو عنایت کیوں نہیں کرتے
مری دل کی تباہی کی شکایت پر کہا اس نے
تم اپنے گھر کی چیزوں کی حفاظت کیوں نہیں کرتے
بدن بیٹھا ہے کب سے کاسۂ امید کی صورت
سو دے کر وصل کی خیرات رخصت کیوں نہیں کرتے
قیامت دیکھنے کے شوق میں ہم مر مٹے تم پر
قیامت کرنے والو اب قیامت کیوں نہیں کرتے
میں اپنے ساتھ جذبوں کی جماعت لے کے آیا ہوں
جب اتنے مقتدی ہیں تو امامت کیوں نہیں کرتے
تم اپنے ہونٹھ آئینے میں دیکھو اور پھر سوچو
کہ ہم صرف ایک بوسہ پر قناعت کیوں نہیں کرتے
بہت ناراض ہے وہ اور اسے ہم سے شکایت ہے
کہ اس ناراضگی کی بھی شکایت کیوں نہیں کرتے
کبھی اللہ میاں پوچھیں گے تب ان کو بتائیں گے
کسی کو کیوں بتائیں ہم عبادت کیوں نہیں کرتے
مرتب کر لیا ہے کلیات زخم اگر اپنا
تو پھر احساسؔ جی اس کی اشاعت کیوں نہیں کرتے
غزل
تمہیں اس سے محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے
فرحت احساس