تمہیں بھی چاہا، زمانے سے بھی وفا کی تھی
یہ نگہ داری جنوں نے جدا جدا کی تھی
وہ سارا قصہ فقط رکھ رکھاؤ کا تو نہ تھا
اس ایک نام سے نسبت بھی انتہا کی تھی
کسی چھبیلے میں وہ چھب نظر نہیں آئی
وہ ایک چھب کہ جو اس آئینہ قبا کی تھی
خدا! صلہ دے دعا کا، محبتوں کے خدا
خدا! کسی نے کسی کے لیے دعا کی تھی
میں اپنا چہرہ کہاں ڈھونڈھتا پھروں گا اب
کہ میں نے تیری جبیں اپنا آئنا کی تھی
ہمیں تباہ تو ہونا تھا اپنی اپنی جگہ!
طویل جنگ تھی اور جنگ بھی انا کی تھی
صبا نفس تھا وہ اور میں تھا گرد باد مزاج
ہمارے بیچ تھی جو قدر سو ہوا کی تھی
غزل
تمہیں بھی چاہا، زمانے سے بھی وفا کی تھی
افتخار مغل