تمہیں اب اس سے زیادہ سزا نہیں دوں گا
دعائیں دوں گا مگر بد دعا نہیں دوں گا
تری طرف سے لڑوں گا میں تیری ہر اک جنگ
رہوں گا ساتھ مگر حوصلہ نہیں دوں گا
تری زبان پہ موقوف میرے ہاتھ کا لمس
نوالہ دوں گا مگر ذائقہ نہیں دوں گا
میں پہلے بوسہ سے نا آشنا رکھوں گا تمہیں
پھر اس کے بعد تمہیں دوسرا نہیں دوں گا
پھر ایک بار گزر جاؤ میرے اوپر سے
میں اس کے بعد تمہیں راستہ نہیں دوں گا
کہ تو تلاش کرے اور میں تجھ کو مل جاؤں
میں تیری آنکھ کو اتنی سزا نہیں دوں گا
بھگائے رکھوں گا اپنی عدالتوں میں تمہیں
تمام عمر تمہیں فیصلہ نہیں دوں گا
میں اس کے ساتھ ہوں جو اٹھ کے پھر کھڑا ہو جائے
میں تیرے شہر کو اب زلزلہ نہیں دوں گا
تری انا کے لیے صرف یہ سزا ہے بہت
تو جا رہا ہے تو تجھ کو صدا نہیں دوں گا
کہ اب کی بار لیاقتؔ ہوا ہوا سو ہوا
میں اس کے ہاتھ میں اب آئنا نہیں دوں گا
غزل
تمہیں اب اس سے زیادہ سزا نہیں دوں گا
لیاقت جعفری