تمہاری یاد تمہارا خیال کافی ہے
سکون دل کے لئے اور سب اضافی ہے
اب اس سے ترک تعلق کے بعد کیا ملنا
یہ جرم وہ ہے جو نا قابل تلافی ہے
وصال یار کی حسرت نکال دی دل سے
سنا ہے میں کہ یہ عشق کے منافی ہے
وہ بے وفا مجھے کہتا ہے اور میں اس کو
یہ مسئلہ بھی مرے بیچ اختلافی ہے
بجا کہ میں ہوں سزاوار سب کی نظروں میں
پر ان کے دل میں تو اک گوشۂ معافی ہے
قسم تو کھائی ہے رضوانؔ اس نے ملنے کی
یقیں ہو کیا کہ یہ لہجہ بھی انحرافی ہے

غزل
تمہاری یاد تمہارا خیال کافی ہے
رضوان الرضا رضوان