EN हिंदी
تمہاری یاد کو ہم نے پلک پر یوں سجا رکھا | شیح شیری
tumhaari yaad ko humne palak par yun saja rakkha

غزل

تمہاری یاد کو ہم نے پلک پر یوں سجا رکھا

سنجیو آریہ

;

تمہاری یاد کو ہم نے پلک پر یوں سجا رکھا
اندھیری رات میں ہر روز آنگن میں دیا رکھا

لبوں سے گفتگو ہوتی تو کچھ شکوہ نہ ہو پاتا
نظر سے جب سنا اس کو تبسم سے گلا رکھا

گیا پردیس بیٹا جب بھی لے کر خواب سب اپنے
تو پھر دن رات ماں نے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھا

دوالی عید میں اکثر کھلونے بیچتا ہے اب
یہ وہ بچہ ہے جس نے اپنی خواہش کو دبا رکھا

وہاں اک چاند سی لڑکی بھی رہتی ہے یہ جانا تب
دریچے کی حیا کو جب دوپٹے سے اڑا رکھا

یہ روشن دان سے معصوم سی تتلی چپکتی ہے
اسی آہٹ کو ہم نے اپنی غزلوں کی صدا رکھا

یہ دہشت گرد سڑکیں ہیں مجھے کب قتل کر ڈالیں
کسی کاغذ کے پرزے میں میں اپنا بھی پتا رکھا

کہیں دلی کی سڑکوں پر بھلا انصاف ملتا ہے
مگرمچھوں کے آنسو کو سیاست نے بہا رکھا