تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا
ازل سے لے کے ابد تک میں ٹوٹ جاؤں گا
خبر نہیں ہے کسی کو بھی خستگی کی مری
مجھے نہ ہاتھ لگاؤ کہ ٹوٹ جاؤں گا
تمہاری میری رفاقت ہے چند قوموں تک
تمہارے پاؤں کا چھالا ہوں پھوٹ جاؤں گا
ہزار ناز سہی مجھ کو اپنی قسمت پر
حنائے دست نگاریں ہوں چھوٹ جاؤں گا
تمہاری بزم سے اٹھ کر یہ وعدہ کرتا ہوں
جہاں بھی جاؤں گا اب جھوٹ موٹ جاؤں گا
غزل
تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا
سلیمان اریب