EN हिंदी
تمہاری جستجو کی ہے وہاں تک | شیح شیری
tumhaari justuju ki hai wahan tak

غزل

تمہاری جستجو کی ہے وہاں تک

یونس غازی

;

تمہاری جستجو کی ہے وہاں تک
نہیں پہنچے جہاں وہم و گماں تک

جو رشتے تھے ہمارے درمیاں تک
وہ لے آئے ہمیں اب امتحاں تک

محبت میں مقام آیا ہے کیسا
عیاں ہونے کو ہے راز نہاں تک

نہیں ملتا ترا ثانی کہیں بھی
نظر پہنچی ہے اپنی کہکشاں تک

پلٹ کر جب کبھی دیکھا تو سمجھا
کہاں سے آ گئے ہیں ہم کہاں تک

سنبھل کر بات کیجے شیخ جی سے
رسائی ان کی ہے پیر مغاں تک

ٹٹولا ہے انہوں نے دل کو اکثر
مگر پہنچے نہیں درد نہاں تک

نظر آتا ہے بس جلوہ اسی کا
پہنچتی ہے نظر اپنی جہاں تک

یہ فصل گل یہ بلبل کی اسیری
ہیں فریادی قفس کی تتلیاں تک

یقیناً قابل‌ عظمت ہے غازیؔ
نہ اف کی سن کے اس نے گالیاں تک