تمہاری ہوشیاری چھین لے گا
بہت کچھ یے مداری چھین لے گا
وہی جو ہوش میں لکھا ہے میں نے
تری ساری خماری چھین لے گا
مجاور نے ہماری جیب کاٹی
ترا پیسہ پجاری چھین لے گا
بدلتے وقت کی فطرت یہی ہے
تری پہچان ساری چھین لے گا
ہمارا ہاتھ بھی زخمی ہے لیکن
کئی ہاتھوں سے آری چھین لے گا

غزل
تمہاری ہوشیاری چھین لے گا
منظور دیپالپوری