تمہاری بے ادائی کے مزے آنے لگے مجھ کو
جو میرے دشمن جاں تھے وہ سمجھانے لگے مجھ کو
تری فرقت میں حالت ہو گئی ہے آج وہ میری
یہ میرے چارہ گر زنجیر پہنانے لگے مجھ کو
خدایا دیکھ کر ان کو مجھے تجھ پر یقیں آیا
انہیں میں تو ترے جلوے نظر آنے لگے مجھ کو
دیے اشکوں کے پلکوں کی منڈیروں پر ہوئے روشن
کبھی جو شام ہجراں آپ یاد آنے لگے مجھ کو
نتیجہ دل کے سمجھانے کا نکلے بھی تو کیا نکلے
اسے سمجھانے جو بیٹھوں وہ سمجھانے لگے مجھ کو
نہ جن کے جسم پر سر ہے نہ چہرہ ہے نہ آنکھیں ہیں
قیامت ہے وہی آئینہ دکھلانے لگے مجھ کو
جو پتھر پھینکنے والوں کو میں نے غور سے دیکھا
بہت سے لوگ ان میں جانے پہچانے لگے مجھ کو

غزل
تمہاری بے ادائی کے مزے آنے لگے مجھ کو
مینو بخشی