تمہاری بزم میں محروم جام ہم بھی تھے
فقط رقیب نہیں تشنہ کام ہم بھی تھے
فقیہ شہر نے گمراہ کر دیا ورنہ
صفت شناس حلال و حرام ہم بھی تھے
عمامہ بند و قبا پوشگاں کا ذکر ہی کیا
ترے حضور میں با احترام ہم بھی تھے
شکستہ پائی میر سفر کا کیا شکوہ
کہ راہ شوق میں کچھ سست گام ہم بھی تھے
تری جفاؤں نے آزاد کر دیا ورنہ
تری اداؤں کے ادنیٰ غلام ہم بھی تھے
نگاہ خاص نے یک لخت کر دیا زندہ
وگرنہ کشتۂ دستور عام ہم بھی تھے
غزل
تمہاری بزم میں محروم جام ہم بھی تھے
موسیٰ رضا