EN हिंदी
تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا | شیح شیری
tumhaare qasre-azadi ke memaron ne kya paya

غزل

تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا

فاروق بانسپاری

;

تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا
جہاں بازوں کی بن آئی جہاں کاروں نے کیا پایا

ستاروں سے شب غم کا تو دامن جگمگا اٹھا
مگر آنسو بہا کر ہجر کے ماروں نے کیا پایا

نقیب عہد زریں صرف اتنا مجھ کو بتلا دے
طلوع صبح نو برحق مگر تاروں نے کیا پایا

جنوں کی بات چھوڑو اس گئے گھر کا ٹھکانا کیا
فریب عقل و حکمت کے پرستاروں نے کیا پایا

سرافرازی ملی اہل ہوس کی پارسائی کو
مگر تیری محبت کے گنہ گاروں نے کیا پایا

کھلونے دے دیے کچھ آپ نے دست تمنا میں
بجز داغ جگر آئینہ برداروں نے کیا پایا

ملی سر پھوڑتے ہی قید ہستی سے بھی آزادی
رکاوٹ ڈال کر زنداں کی دیواروں نے کیا پایا

ہمارے سامنے ہی بیٹھ کر فاروقؔ مسند پر
ہمیں سے پوچھتے ہو پھر کہ غداروں نے کیا پایا