EN हिंदी
تمہارے جسم جب جب دھوپ میں کالے پڑے ہوں گے | شیح شیری
tumhaare jism jab jab dhup mein kale paDe honge

غزل

تمہارے جسم جب جب دھوپ میں کالے پڑے ہوں گے

کنور بے چین

;

تمہارے جسم جب جب دھوپ میں کالے پڑے ہوں گے
ہماری بھی غزل کے پاؤں میں چھالے پڑے ہوں گے

اگر آنکھوں پہ گہری نیند کے تالے پڑے ہوں گے
تو کچھ خوابوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے

کہ جن کی سازشوں سے اب ہماری جیب خالی ہے
وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں کہیں ڈالے پڑے ہوں گے

ہماری عمر مکڑی ہے ہمیں اتنا بتانے کو
بدن پر جھریوں کی شکل میں جالے پڑے ہوں گے

پہنچ پائیں نہ کیوں نظریں کہیں مایوس چہروں تک
کنورؔ راہوں میں ان کی کیش گھنگریالے پڑے ہوں گے