تمہارے جسم جب جب دھوپ میں کالے پڑے ہوں گے
ہماری بھی غزل کے پاؤں میں چھالے پڑے ہوں گے
اگر آنکھوں پہ گہری نیند کے تالے پڑے ہوں گے
تو کچھ خوابوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے
کہ جن کی سازشوں سے اب ہماری جیب خالی ہے
وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں کہیں ڈالے پڑے ہوں گے
ہماری عمر مکڑی ہے ہمیں اتنا بتانے کو
بدن پر جھریوں کی شکل میں جالے پڑے ہوں گے
پہنچ پائیں نہ کیوں نظریں کہیں مایوس چہروں تک
کنورؔ راہوں میں ان کی کیش گھنگریالے پڑے ہوں گے
غزل
تمہارے جسم جب جب دھوپ میں کالے پڑے ہوں گے
کنور بے چین

