EN हिंदी
تمہارے جاتے ہی ہر چشم تر کو دیکھتے ہیں | شیح شیری
tumhaare jate hi har chashm-e-tar ko dekhte hain

غزل

تمہارے جاتے ہی ہر چشم تر کو دیکھتے ہیں

امام اعظم

;

تمہارے جاتے ہی ہر چشم تر کو دیکھتے ہیں
ہے آنسوؤں کا سمندر جدھر کو دیکھتے ہیں

فرازؔ ہو گئے رخصت جہان فانی سے
اداس اداس سخن کے سفر کو دیکھتے ہیں

کہاں وہ عشق جواں کی ٹھہر گئیں کرنیں
رکی رکی ہوئی باد سحر کو دیکھتے ہیں

سنا ہے فیضؔ سے آگے نکل گئے تھے فرازؔ
غزل کے سوز دروں کے اثر کو دیکھتے ہیں

سنا ہے اس نے غزل کا بدل دیا لہجہ
سبھی فرازؔ کے فکر و نظر کو دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی غزل آئنہ تھی ہستی کا
اسی لئے تو ہم اس آئینہ گر کو دیکھتے ہیں

سجایا اس نے ہنر سے جو اپنی غزلوں کو
سنا ہے لوگ اب اس کے ہنر کو دیکھتے ہیں

کہاں فرازؔ کہاں اعظمؔ شکستہ جاں
ذرا سا چل کے ہم اس کی ڈگر کو دیکھتے ہیں