تمہارے جاتے ہی ہر چشم تر کو دیکھتے ہیں
ہے آنسوؤں کا سمندر جدھر کو دیکھتے ہیں
فرازؔ ہو گئے رخصت جہان فانی سے
اداس اداس سخن کے سفر کو دیکھتے ہیں
کہاں وہ عشق جواں کی ٹھہر گئیں کرنیں
رکی رکی ہوئی باد سحر کو دیکھتے ہیں
سنا ہے فیضؔ سے آگے نکل گئے تھے فرازؔ
غزل کے سوز دروں کے اثر کو دیکھتے ہیں
سنا ہے اس نے غزل کا بدل دیا لہجہ
سبھی فرازؔ کے فکر و نظر کو دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی غزل آئنہ تھی ہستی کا
اسی لئے تو ہم اس آئینہ گر کو دیکھتے ہیں
سجایا اس نے ہنر سے جو اپنی غزلوں کو
سنا ہے لوگ اب اس کے ہنر کو دیکھتے ہیں
کہاں فرازؔ کہاں اعظمؔ شکستہ جاں
ذرا سا چل کے ہم اس کی ڈگر کو دیکھتے ہیں

غزل
تمہارے جاتے ہی ہر چشم تر کو دیکھتے ہیں
امام اعظم