تمہارے بعد جو بکھرے تو کو بہ کو ہوئے ہم
پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم
تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہے
اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھو کبھو ہوئے ہم
یوں گرد راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے
پھر آسمان ہوئے اور چار سو ہوئے ہم
رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام
کبھی نہ دست ہنر مند سے رفو ہوئے ہم
خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا
شناسؔ پھر کہیں موضوع گفتگو ہوئے ہم
غزل
تمہارے بعد جو بکھرے تو کو بہ کو ہوئے ہم
فہیم شناس کاظمی