EN हिंदी
تمہارا نام زباں سے نکل گیا آخر | شیح شیری
tumhaara nam zaban se nikal gaya aaKHir

غزل

تمہارا نام زباں سے نکل گیا آخر

نقاش عابدی

;

تمہارا نام زباں سے نکل گیا آخر
زمانہ میرے گماں سے نکل گیا آخر

سنبھال کر جسے رکھا ہوا تھا مدت سے
وہ تیر تیری کماں سے نکل گیا آخر

تمام اپنے سوال و جواب بھول گئے
حساب سود و زیاں سے نکل گیا آخر

ہر ایک شخص میں تجھ کو تلاش کرتا ہوا
ہجوم نکتہ وراں سے نکل گیا آخر

جو لازمی تھا ترے سامنے ادا ہونا
وہ ایک لفظ بیاں سے نکل گیا آخر

تمہارے سامنے کب تک خرد وفا کرتی
مکین ہوش مکاں سے نکل گیا آخر

مری تلاش میں حد ہی عبور کر ڈالی
مرے لیے وہ جہاں سے نکل گیا آخر