تمہارا کیا تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے
ہمیں ہر ایک موسم قافلے کے ساتھ چلنا ہے
بس اک ڈھلوان ہے جس پر لڑھکتے جا رہے ہیں ہم
ہمیں جانے نشیبوں میں کہاں جا کر سنبھلنا ہے
ہم اس ڈر سے کوئی سورج چمکنے ہی نہیں دیتے
کہ جانے شب کے اندھیاروں سے کیا منظر نکلنا ہے
ہمارے دل جزیرے پر اترتا ہی نہیں کوئی
کہیں کس سے کہ اس مٹی نے کس سانچے میں ڈھلنا ہے
نگاہیں پوچھتی پھرتی ہیں آوارہ ہواؤں سے
زمینوں نے زمانوں کا خزانہ کب اگلنا ہے
کسی معصوم سے جھونکے کی اک ہلکی سی دستک پر
انہی پتھر پہاڑوں سے کوئی چشمہ ابلنا ہے
غزل
تمہارا کیا تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے
جلیل عالیؔ