EN हिंदी
تم اسی کو وجہ طرب کہو ہم اسی کو باعث غم کہیں | شیح شیری
tum usi ko wajh-e-tarab kaho hum usi ko bais-e-gham kahen

غزل

تم اسی کو وجہ طرب کہو ہم اسی کو باعث غم کہیں

قمر مرادآبادی

;

تم اسی کو وجہ طرب کہو ہم اسی کو باعث غم کہیں
وہی اک فسانۂ عشق ہے کبھی تم کہو کبھی ہم کہیں

کبھی ذکر مہر و وفا کریں کبھی داستان الم کہیں
بڑے اعتماد سے وہ سنیں بڑے اعتماد سے ہم کہیں

جسے انقلاب نہ چھو سکا اسے تو نے خود ہی مٹا دیا
وہی ایک دل کا صنم کدہ جسے آبروئے حرم کہیں

وہی دل خراش سی اک نظر جو بقدر ذوق ہے نیشتر
اسے کوئی طرز ستم کہے ہم ادائے پرسش غم کہیں

تجھے یہ خبر نہیں ساقیا کہ ہے میکشوں کا مقام کیا
یہ انہیں کی وسعت قلب ہے کہ خود اپنے ظرف کو کم کہیں

ہمہ آرزو ہمہ بے خودی ہمہ بندگی ہمہ بے کسی
یہی چند لمحوں کی زندگی اسے کیوں نہ فرصت غم کہیں

قمرؔ اس سے ہم کو غرض ہی کیا ہے سبھی سے اس کا معاملہ
جو خدا کہیں وہ خدا کہیں جو صنم کہیں وہ صنم کہیں