EN हिंदी
تم سے جب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے | شیح شیری
tum se jab bichhDe to kitne rabte rakkhe gae

غزل

تم سے جب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے

ممتاز اطہر

;

تم سے جب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے
آہٹوں پر کان پلکوں پر دیئے رکھے گئے

کشتیٔ جاں درد کی لہروں میں سرگرداں رہی
دھڑکنوں کے ساتھ ان مٹ وسوسے رکھے گئے

اپنی خاطر خواب وہ رکھے جو بے تعبیر تھے
جاگتے لمحے تمہارے واسطے رکھے گئے

عکس رکھتا تھا نہ اپنی ذات میں اپنا کوئی
کتنے چہرے آئینوں کے سامنے رکھے گئے

کیا مسافت کی تھکن سے آشنائی کا فریب
لوٹ آنے کے لئے جب راستے رکھے گئے

اس کی آنکھوں کو دیئے منظر ستاروں کے مگر
میری بینائی کی خاطر آبلے رکھے گئے

کیا خبر تھی ایک جھونکا لے اڑے گا آشیاں
جوڑ کر تنکے تو اطہرؔ آس کے رکھے گئے