تم سے جب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے
آہٹوں پر کان پلکوں پر دیئے رکھے گئے
کشتیٔ جاں درد کی لہروں میں سرگرداں رہی
دھڑکنوں کے ساتھ ان مٹ وسوسے رکھے گئے
اپنی خاطر خواب وہ رکھے جو بے تعبیر تھے
جاگتے لمحے تمہارے واسطے رکھے گئے
عکس رکھتا تھا نہ اپنی ذات میں اپنا کوئی
کتنے چہرے آئینوں کے سامنے رکھے گئے
کیا مسافت کی تھکن سے آشنائی کا فریب
لوٹ آنے کے لئے جب راستے رکھے گئے
اس کی آنکھوں کو دیئے منظر ستاروں کے مگر
میری بینائی کی خاطر آبلے رکھے گئے
کیا خبر تھی ایک جھونکا لے اڑے گا آشیاں
جوڑ کر تنکے تو اطہرؔ آس کے رکھے گئے
غزل
تم سے جب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے
ممتاز اطہر