تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
دور ہا دور آ چکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں
اس گمان گماں کے عالم میں
آخرش کیا بھلا چکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے مری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھ چکا ہوں میں
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چکا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رما چکا ہوں میں
نہیں املا درست غالبؔ کا
شیفتہؔ کو بتا چکا ہوں میں
غزل
تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
جون ایلیا