EN हिंदी
تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں | شیح شیری
tum se bhi ab to ja chuka hun main

غزل

تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں

جون ایلیا

;

تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
دور ہا دور آ چکا ہوں میں

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

اس گمان گماں کے عالم میں
آخرش کیا بھلا چکا ہوں میں

اب ببر شیر اشتہا ہے مری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھ چکا ہوں میں

حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رما چکا ہوں میں

نہیں املا درست غالبؔ کا
شیفتہؔ کو بتا چکا ہوں میں