تم نے یہ ماجرا سنا ہے کیا
جو بھی ہونا ہے ہو چکا ہے کیا
وہ مسافر جو راستے میں تھا
منزلوں سے گزر گیا ہے کیا
کوئی ہوتا نہیں ہے آپ کے ساتھ
آپ کے ساتھ مسئلہ ہے کیا
یہ جو تدبیر کر رہا ہوں میں
یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے کیا
سوچنے والی بات ہے عمرانؔ
کوئی یہ بات سوچتا ہے کیا
دل بدل جائے گھر بدل جائے
آدمی کا کوئی پتا ہے کیا
کیا ہے یہ مستطیل تنہائی
یہ اداسی کا دائرہ ہے کیا
غور سے کون دیکھتا ہے یہاں
ان چراغوں میں جل رہا ہے کیا
کیوں وہ سر پر سوار ہے عمرانؔ
تیرے دل سے اتر گیا ہے کیا
غزل
تم نے یہ ماجرا سنا ہے کیا
عمران شمشاد