EN हिंदी
تم نے اب سیکھ لیا مجھ کو ستائے رکھنا | شیح شیری
tumne ab sikh liya mujhko satae rakhna

غزل

تم نے اب سیکھ لیا مجھ کو ستائے رکھنا

نقاش عابدی

;

تم نے اب سیکھ لیا مجھ کو ستائے رکھنا
ایک محشر سا مرے دل میں اٹھائے رکھنا

ایسا کرنا کہ مرے نام کو دل پر لکھ کر
پردۂ ذہن کو توقیر دلائے رکھنا

میں بھی رکھوں گا تمہیں سوچ کے شانوں پہ سوار
تم بھی سینے سے مری آس لگائے رکھنا

پھر اترنا ہے مجھے خواب کی گہرائی میں
تم نگاہوں میں کوئی راہ بنائے رکھنا

منتظر آنکھ کو مایوس نہ ہونے دینا
خود کو امید کے رستے پہ بٹھائے رکھنا

جانے کب پھر سے پلٹ آؤں تمہاری خاطر
پھول احساس کے گلشن میں کھلائے رکھنا

اپنی آنکھوں کا دیا میری جبیں پر رکھ کر
نام اپنا مری قسمت میں جگائے رکھنا