EN हिंदी
تم لاکھ چاہے میری آفت میں جان رکھنا | شیح شیری
tum lakh chahe meri aafat mein jaan rakhna

غزل

تم لاکھ چاہے میری آفت میں جان رکھنا

کمار وشواس

;

تم لاکھ چاہے میری آفت میں جان رکھنا
پر اپنے واسطے بھی کچھ امتحان رکھنا

وہ شخص کام کا ہے دو عیب بھی ہیں اس میں
اک سر اٹھانا دوجا منہ میں زبان رکھنا

پگلی سی ایک لڑکی سے شہر یہ خفا ہے
وہ چاہتی ہے پلکوں پہ آسمان رکھنا

کیول فقیروں کو ہے یہ کامیابی حاصل
مستی سے جینا اور خوش سارا جہان رکھنا