EN हिंदी
تم کیا صاحب اور تمہاری بات ہے کیا | شیح شیری
tum kya sahab aur tumhaari baat hai kya

غزل

تم کیا صاحب اور تمہاری بات ہے کیا

ذاکر خان ذاکر

;

تم کیا صاحب اور تمہاری بات ہے کیا
دھرتی کی آکاش تلے اوقات ہے کیا

صرف جنوں ہے اس کے سوا یہ کچھ بھی نہیں
پیار نہ دیکھے نسل ہے کیسی ذات ہے کیا

پوچھ رہی ہیں روٹھ کے جاتی خوشیاں بھی
جیت سے پہلے جیون پتھ پر مات ہے کیا

ہم کیا جانیں ہم نے اندھیرا اوڑھ لیا
اس کی ادا کیا خواہش کیا جذبات ہے کیا

بخت کا تارہ شام سے پہلے ڈوب گیا
رات گئے اب تاروں کی بارات ہے کیا

تیرے سارے خواب ہی ذاکرؔ بھیگ چکے
دل کی زمیں پر اشکوں کی برسات ہے کیا