تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے
باہم تھا اتحاد ابھی کل کی بات ہے
منزل تھی ایک جس پہ بہم گامزن رہے
بالکل نہ تھا تضاد ابھی کل کی بات ہے
اک روشنی تھی دل میں بہت پاک و صاف تھے
ایسا نہ تھا عناد ابھی کل کی بات ہے
بنیاد خود ہی آپ نے رکھی نفاق کی
شیر و شکر تھے شاد ابھی کل کی بات ہے
صحن چمن میں اپنے نظرؔ تھی عجب بہار
تھا دور ابر و باد ابھی کل کی بات ہے
غزل
تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے
نظر برنی