EN हिंदी
تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے | شیح شیری
tumko nahin hai yaad abhi kal ki baat hai

غزل

تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے

نظر برنی

;

تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے
باہم تھا اتحاد ابھی کل کی بات ہے

منزل تھی ایک جس پہ بہم گامزن رہے
بالکل نہ تھا تضاد ابھی کل کی بات ہے

اک روشنی تھی دل میں بہت پاک و صاف تھے
ایسا نہ تھا عناد ابھی کل کی بات ہے

بنیاد خود ہی آپ نے رکھی نفاق کی
شیر و شکر تھے شاد ابھی کل کی بات ہے

صحن چمن میں اپنے نظرؔ تھی عجب بہار
تھا دور ابر و باد ابھی کل کی بات ہے