تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
اے بتو کیا کسی کے خدا ہو
اپنے مستوں کی خیرات ساقی
ایک ساغر مجھے بھی عطا ہو
کچھ رہا بھی ہے بیمار غم میں
اب دوا ہو تو کس کی دوا ہو
آؤ مل لو شب وعدہ آ کر
صبح تک پھر خدا جانے کیا ہو
تو نے مجھ کو کہیں کا نہ رکھا
اے دل زار تیرا برا ہو
غصے میں بھی رہا پاس دشمن
کہہ رہے ہیں کہ تیرا بھلا ہو
تم کو بیدمؔ ہمیں جانتے ہیں
پارسا ہو بڑے پارسا ہو
غزل
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
بیدم شاہ وارثی