تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
اے ہمدم من اس کے کہیں اور لگی لڑ
اس نے شجر دوستی اب دل سے اکھاڑا
کہنے سے رقیبوں کے ہے فتنے کی بندھی جڑ
اس بت کو کہاں پہنچیں بت آذر کے تراشے
ہاتھ اپنے سے تیار کرے جس کو خدا گھڑ
دل دوز نگہ یار کی ہوتی ہے مقابل
برچھی کی انی سی مرے سینے میں گئی گڑ
خجلت سے تو پھر سامنے آنکھیں نہ کرے گا
اے ابر مرے گریہ کی جس وقت لگی جھڑ
خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے
سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ
رندوں نے عوض وسمے کے نورا جو لگایا
پاکی کی طرح شیخ کی داڑھی بھی گئی جھڑ
ترچھی نگہ اس کی کہ ہوا کوئی نہ آڑے
سینے کو سپر کر کے رہے ایک ہمیں اڑ
صحرائے جنوں سے محبؔ اس زلف کی زنجیر
پھر پیچ میں لے آئی مجھے پاؤں مرے پڑ
غزل
تم جانتے ہو کس لئے وہ مجھ سے گیا لڑ
ولی اللہ محب