EN हिंदी
تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹھہرا | شیح شیری
tum gae sath ujalon ka bhi jhuTa Thahra

غزل

تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹھہرا

وحید اختر

;

تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹھہرا
روز و شب اپنا مقدر ہی اندھیرا ٹھہرا

یاد کرتے نہیں اتنا تو دل خانہ خراب
بھولا بھٹکا کوئی دو روز اگر آ ٹھہرا

کوئی الزام نسیم سحری پر نہ گیا
پھول ہنسنے پہ خطا‌ وار اکیلا ٹھہرا

پتیاں رہ گئیں بو لے اڑی آوارہ صبا
قافلہ موج بہاراں کا بس اتنا ٹھہرا

روز نظروں سے گزرتے ہیں ہزاروں چہرے
سامنے دل کے مگر ایک ہی چہرا ٹھہرا

وقت بھی سعیٔ مداوائے الم کر نہ سکا
جب سے تم بچھڑے ہو خود وقت ہے ٹھہرا ٹھہرا

دل ہے وہ موم ملا ہے جسے شمعوں کا گداز
اب کوئی دیکھے نہ دیکھے یوں ہی جلنا ٹھہرا

تم نے جو شمع جلائی تھی نہ بجھنے پائے
اب تو لے دے کے یہی کام ہمارا ٹھہرا

گنگنا لیں گے غزل آج وحیدؔ اختر کی
نام لینا ہی جو در پردہ تمہارا ٹھہرا