تم دور ہو تو پیار کا موسم نہ آئے گا
اب کے برس بہار کا موسم نہ آئے گا
چوموں گا کس کی زلف گھٹاؤں کو دیکھ کر
اک جرم خوش گوار کا موسم نہ آئے گا
چھلکے شراب برق گرے یا جلیں چراغ
ذکر نگاہ یار کا موسم نہ آئے گا
وعدہ خلافیوں کو ترس جائے گا یقیں
راتوں کو انتظار کا موسم نہ آئے گا
تجھ سے بچھڑ کے زندگی ہو جائے گی طویل
احساس کے نکھار کا موسم نہ آئے گا
غزل
تم دور ہو تو پیار کا موسم نہ آئے گا
اسد بھوپالی