تم بن وقت یہ کیسا گزرا
اشکوں کا اک دریا گزرا
میرا ہی گھر بھول گیا تھا
بادل قریہ قریہ گزرا
کاٹ گیا تھا زیست کا دھارا
کہنے کو اک لمحہ گزرا
چیخ تھی دل کی لے میں ڈھل کر
جیسے کوئی نغمہ گزرا
خون ہے جن آنکھوں سے جاری
ان میں بھی اک سپنا گزرا
خوش رہنے کا خاک جتن ہو
دل پر بھاری صدمہ گزرا
روز ہی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
آہ مگر اک اپنا گزرا
جان محفل تھا جو کبھی وہ
کیسا تنہا تنہا گزرا
غزل
تم بن وقت یہ کیسا گزرا
ماہ طلعت زاہدی