تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے در پیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اجال رکھنا
بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا
یہ دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا
کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذرؔ
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا
غزل
تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
اعزاز احمد آذر