EN हिंदी
تم اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے | شیح شیری
tum achchhe masiha ho dawa kyun nahin dete

غزل

تم اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے

احسان جعفری

;

تم اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے
بے نور جو ہے شمع بجھا کیوں نہیں دیتے

بے نام ہوں بے ننگ ہوں ظاہر تو ہے تم پر
گر ربط نہیں دل سے بھلا کیوں نہیں دیتے

خوشبو کی طرح پھول کی اٹھوں گا چمن سے
تو پھول کو زلفوں سے گرا کیوں نہیں دیتے

پہنچوں گا کشاکش میں جہاں تم نے بلایا
تم حشر کے میداں سے صدا کیوں نہیں دیتے

محفل میں اگر رونق محفل ہے کوئی اور
یہ بات بھی محفل کو بتا کیوں نہیں دیتے

اک بوند سی لرزاں ہے سر چشم تمنا
نایاب نہیں آب گرا کیوں نہیں دیتے

ناکردہ گناہوں کی سزا موت ملی ہے
پھر کردہ گناہوں کی سزا کیوں نہیں دیتے

زخموں کو مرے دل پہ اگر دیکھ لیا ہے
دامن سے وفاؤں کی ہوا کیوں نہیں دیتے

دیکھا تھا کبھی ہم نے محبت کا جنازہ
باقی ہے اگر کچھ تو دکھا کیوں نہیں دیتے

ہر لمحہ ہمارا ہی فسانہ ہے زباں پر
ہم کچھ بھی نہیں ہیں تو بھلا کیوں نہیں دیتے

کر لیں گے ہر اک منزل دشوار کو سر ہم
اک جام محبت کا پلا کیوں نہیں دیتے