ٹکڑے ٹکڑے مرا دامان شکیبائی ہے
کس قدر صبر شکن آپ کی انگڑائی ہے
دل نے جذبات محبت سے ضیا پائی ہے
میری تنہائی بھی اک انجمن آرائی ہے
اب جفا سے بھی گریزاں ہیں وہ اللہ اللہ
دیکھیے کیا مرا انجام شکیبائی ہے
بجلیاں میرے قفس پر نہ کہیں ٹوٹ پڑیں
کیوں صبا خاک نشیمن کی یہاں لائی ہے
بس وہی بحر محبت کا شناور نکلا
جس نے طوفاں سے الجھنے کی قسم کھائی ہے
شوق سے آپ زمانہ کو نوازیں لیکن
کیا کوئی میری طرح آپ کا شیدائی ہے
کون ہمدرد زمانے میں ہے اقبالؔ مگر
ان کی اک یاد فقط مونس تنہائی ہے

غزل
ٹکڑے ٹکڑے مرا دامان شکیبائی ہے
اقبال حسین رضوی اقبال