ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
سرخاب بیٹھے پانی میں ہیں مل کے چار پانچ
منہ کھولے ہیں یہ زخم جو بسمل کے چار پانچ
پھر لیں گے بوسے خنجر قاتل کے چار پانچ
کہنے ہیں مطلب ان سے ہمیں دل کے چار پانچ
کیا کہیے ایک منہ ہیں وہاں مل کے چار پانچ
دریا میں گر پڑا جو مرا اشک ایک گرم
بت خانے لب پہ ہو گئے ساحل کے چار پانچ
دو چار لاشے اب بھی پڑے تیرے در پہ ہیں
اور آگے دب چکے ہیں تلے گل کے چار پانچ
راہیں ہیں دو مجاز و حقیقت ہے جن کا نام
رستے نہیں ہیں عشق کی منزل کے چار پانچ
رنج و تعب مصیبت و غم یاس و درد و داغ
آہ و فغاں رفیق ہیں یہ دل کے چار پانچ
دو تین جھٹکے دوں جوں ہی وحشت کے زور میں
زنداں میں ٹکڑے ہوویں سلاسل کے چار پانچ
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ
ناز و ادا و غمزہ نگہ پنجۂ مژہ
ماریں ہیں ایک دل کو یہ پل پل کے چار پانچ
ایما ہے یہ کہ دیویں گے نو دن کے بعد دل
لکھ بھیجے خط میں شعر جو بیدل کے چار پانچ
ہیرے کے نورتن نہیں تیرے ہوئے ہیں جمع
یہ چاندنی کے پھول مگر کھل کے چار پانچ
مینائے نہہ فلک ہے کہاں بادۂ نشاط
شیشے ہیں یہ تو زہر ہلاہل کے چار پانچ
ناخن کریں ہیں زخموں کو دو دو ملا کے ایک
تھے آٹھ دس سو ہو گئے اب چھل کے چار پانچ
گر انجم فلک سے بھی تعداد کیجئے
نکلیں زیادہ داغ مرے دل کے چار پانچ
ماریں جو سر پہ سل کو اٹھا کر قلق سے ہم
دس پانچ ٹکڑے سر کے ہوں اور سل کے چار پانچ
مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو
ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ
غزل
ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
بہادر شاہ ظفر