EN हिंदी
ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے | شیح شیری
Tuk honT hilaun to ye kahta hai na bak be

غزل

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے

نظیر اکبرآبادی

;

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے

کہتا ہوں کبھی گھر میں مرے آ تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے

جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے

پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں
اڑ جائے گی چہرے کی ترے سب یہ جھمک بے

سب بانکپن اب تیرا نظیرؔ عشق نے کھویا
کیا ہو گئی سچ کہہ وہ تیری دوت دبک بے