ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تس پر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا
تم نے تو نہیں خیر یہ فرمائیے بارے
پھر کن نے لیا راحت و آرام ہمارا
میں نے جو کہا آئیے مجھ پاس تو بولے
کیوں کس لیے کس واسطے کیا کام ہمارا
رکھتے ہیں کہیں پانو تو پڑتے ہیں کہیں اور
ساقی تو ذرا ہاتھ تو لے تھام ہمارا
ٹک دیکھ ادھر غور کر انصاف یہ ہے واہ
ہو جرم و گنہ غیر سے اور نام ہمارا
اے باد صبا محفل احباب میں کہیو
دیکھا ہے جو کچھ حال تہہ دام ہمارا
گر وقت سحر جائیے ہوتا ہے یہ ارشاد
ہے وقت ملاقات سر شام ہمارا
پھر شام کو آئے تو کہا صبح کو یوں ہی
رہتا ہے سدا آپ پر الزام ہمارا
سرگشتگی مرحلۂ شوق میں اے عشق
پڑتا ہے نئی وضع سے ہر گام ہمارا
اے برہمن دیر محبت میں صنم کی
اللہ ہی باقی رکھے اسلام ہمارا
ہم کوچۂ دل دار کے ہوتے ہیں تصدق
اے شیخ حرم ہے یہی احرام ہمارا
بیتابی دل کے سبب اس شوخ تک انشاؔ
پہنچے ہے بلا واسطہ پیغام ہمارا
غزل
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
انشاءؔ اللہ خاں