EN हिंदी
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا | شیح شیری
tujhi se ibtida hai tu hi ek din intiha hoga

غزل

تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا

جگر مراد آبادی

;

تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
در جنت نہ وا ہوگا در رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا درد دے کہ تیرا اور درد لا دوا ہوگا

نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہوگا

جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامن حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا