EN हिंदी
تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا | شیح شیری
tujhe talash hai jis ki guzar gaya kab ka

غزل

تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا

صابر ادیب

;

تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا
مرے وجود میں وہ شخص مر گیا کب کا

جو مجھ میں رہ کے مجھے آئینہ دکھاتا تھا
مرے بدن سے وہ چہرہ اتر گیا کب کا

طلسم ٹوٹ گیا شب کا میں بھی گھر کو چلوں
رکا تھا جس کے لیے وہ بھی گھر گیا کب کا

تجھے جو فیصلہ دینا ہے دے بھی مصنف وقت
وہ مجھ پہ سارے ہی الزام دھر گیا کب کا

نہ جانے کون سا پل ٹوٹ کر بکھر جائے
ہمارے صبر کا کشکول بھر گیا کب کا