تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا
مرے وجود میں وہ شخص مر گیا کب کا
جو مجھ میں رہ کے مجھے آئینہ دکھاتا تھا
مرے بدن سے وہ چہرہ اتر گیا کب کا
طلسم ٹوٹ گیا شب کا میں بھی گھر کو چلوں
رکا تھا جس کے لیے وہ بھی گھر گیا کب کا
تجھے جو فیصلہ دینا ہے دے بھی مصنف وقت
وہ مجھ پہ سارے ہی الزام دھر گیا کب کا
نہ جانے کون سا پل ٹوٹ کر بکھر جائے
ہمارے صبر کا کشکول بھر گیا کب کا

غزل
تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا
صابر ادیب