تجھے پکارا ہے بے ارادہ
جو دل دکھا ہے بہت زیادہ
ندیم ہو تیرا حرف شیریں
تو رنگ پر آئے رنگ بادہ
عطا کرو اک ادائے دیریں
تو اشک سے تر کریں لبادہ
نہ جانے کس دن سے منتظر ہے
دل سر رہ گزر فتادہ
کہ ایک دن پھر نظر میں آئے
وہ بام روشن وہ در کشادہ
وہ آئے پرسش کو پھر سجائے
قبائے رنگیں ادائے سادہ
غزل
تجھے پکارا ہے بے ارادہ
فیض احمد فیض