تجھے کیا ہوا ہے بتا اے دل نہ سکون ہے نہ قرار ہے
کبھی اس حسین کی چاہ ہے کبھی اس نگار سے پیار ہے
جو سمجھ میں آئے وہ بات کیا یہ معاملات ہیں عشق کے
کہ نقاب رخ پہ رہے مگر ہے یقین یہ وہی یار ہے
یہ ہیں اپنے ذہن کے عکس سب یہاں اصل کیا ہے خیال کیا
یہ خزاں کے رنگ ہیں بے خبر تو سمجھ رہا ہے بہار ہے
وہ بھلا سا نام تھا کیا کہوں مجھے خود بھی یاد نہیں رہا
مری زندگی کے قریب میں وہ جو ایک مشت غبار ہے
سفر تلاش سکون میں بڑھے اور درد کے سلسلے
مجھے منزلوں کی خبر نہیں یہاں صرف دشت ہیں خار ہے
مجھے درد ایسا ہے چارہ گر یہی پوچھ بس کے کہاں نہیں
یہ یہاں وہاں کا سوال کیا کہ جگر میں میرے شرار ہے
تو ہے غرق دہر میں سر تلک ہے یہیں کے سود کی فکر بس
ترا زہد کیسا عجیب ہے کہ فقط شراب سے عار ہے
غزل
تجھے کیا ہوا ہے بتا اے دل نہ سکون ہے نہ قرار ہے
سلیمان احمد مانی