تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
ہمارا دل بہت ترسا ارے ترسا نہ اب ترسا
میں اس پر مبتلا وہ غیر مذہب شوخ اب ترسا
قیامت ہے مسلماں عاشق اور معشوق ہے ترسا
فقط تیر نگہ سے تو نہ دل کی آرزو نکلی
ترے قرباں لگا اب کے کوئی اس سے بھی بہتر سا
نہ جاؤں میں تو اس کے پاس لیکن کیا کروں یارو
یکایک کچھ جگر میں آ کے لگ جاتا ہے نشتر سا
پکارا دور سے دے کر صفیر اس نے تو کیا میرا
دھڑک کر یک بیک سینے میں دل لوٹا کبوتر سا
ہوا بیمار تیرے عشق میں جو چرخ چارم پر
مسیحا پڑھ رہا ہے کچھ بچھا کر اپنا بستر سا
نظیرؔ اک دو گلے کرنے بہت ہوتے ہیں خوباں سے
چلو اب چپ رہو بس کھول بیٹھے تم تو دفتر سا
غزل
تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
نظیر اکبرآبادی